کبھی کبھی تو کسی اجنبی کے ملنے پر
بہت پرانا کوئی سلسلہ نکلتا ہے
منظور ہاشمی
چلو لہو بھی چراغوں کی نذر کر دیں گے
یہ شرط ہے کہ وہ پھر روشنی زیادہ کریں
منظور ہاشمی
جتنے اس کے فراق میں گزرے
دن وہ شامل کہاں ہیں جینے میں
منظور ہاشمی
اسی امید پہ برسیں گزار دیں ہم نے
وہ کہہ گیا تھا کہ موسم پلٹ کے آتے ہیں
منظور ہاشمی
اک زمانہ ہے ہواؤں کی طرف
میں چراغوں کی طرف ہو جاؤں
منظور ہاشمی
ہمارے ساتھ بھی چلتا ہے رستا
ہمارے بعد بھی رستا چلے گا
منظور ہاشمی
ہمارے لفظ آئندہ زمانوں سے عبارت ہیں
پڑھا جائے گا کل جو آج وہ تحریر کرتے ہیں
منظور ہاشمی
ہدف بھی مجھ کو بنانا ہے اور میرے حریف
مجھی سے تیر مجھی سے کمان مانگتے ہیں
منظور ہاشمی
فراق بچھڑی ہوئی خوشبوؤں کا سہ نہ سکیں
تو پھول اپنا بدن پارا پارا کرتے ہیں
منظور ہاشمی