ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے
مخمور سعیدی
گھر میں رہا تھا کون کہ رخصت کرے ہمیں
چوکھٹ کو الوداع کہا اور چل پڑے
مخمور سعیدی
غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں
مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں
مخمور سعیدی
ڈوبنے والوں پر کسے دنیا نے آوازے
ساحل سے کرتی رہی طوفاں کے اندازے
مخمور سعیدی
دل پہ اک غم کی گھٹا چھائی ہوئی تھی کب سے
آج ان سے جو ملے ٹوٹ کے برسات ہوئی
مخمور سعیدی
بتوں کو پوجنے والوں کو کیوں الزام دیتے ہو
ڈرو اس سے کہ جس نے ان کو اس قابل بنایا ہے
مخمور سعیدی
بجھتی آنکھوں میں سلگتے ہوئے احساس کی لو
ایک شعلہ سا چمکتا پس شبنم دیکھا
مخمور سعیدی
بس یوں ہی ہم سری اہل جہاں ممکن ہے
دم بدم اپنی بلندی سے اترتا جاؤں
مخمور سعیدی