دنیا کو روندنے کا ہنر جانتا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ دنیا کے بعد کیا
خورشید اکبر
غیب کا ایسا پرندہ ہے زمیں پر انساں
آسمانوں کو جو شہ پر پہ اٹھائے ہوئے ہے
خورشید اکبر
آتے آتے آئے گی دنیا داری
جاتے جاتے فاقہ مستی جائے گی
خورشید اکبر
ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی
اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے
خورشید اکبر
جزیرے اگ رہے ہیں پانیوں میں
مگر پختہ کنارا جا رہا ہے
خورشید اکبر
جو دن ہے خاک بیاباں جو رات ہے جنگل
وہ بے پناہ مرے گھر سے ہے زیادہ کیا
خورشید اکبر
کشتی کی طرح تم مجھے دریا میں اتارو
میں بیچ بھنور میں تمہیں پتوار بناؤں
خورشید اکبر
خود سے لکھنے کا اختیار بھی دے
ورنہ قسمت کی تختیاں لے جا
خورشید اکبر
خدا کے غائبانے میں کسی دن
سنو کیا شہر سارا بولتا ہے
خورشید اکبر