زندگی! تجھ کو مگر شرم نہیں آتی کیا
کیسی کیسی تری تصویر نکل آئی ہے
خورشید اکبر
غریبی کاٹنا آساں نہیں ہے
وہ ساری عمر پتھر کاٹتا ہے
خورشید اکبر
اے شہر ستم زاد تری عمر بڑی ہو
کچھ اور بتا نقل مکانی کے علاوہ
خورشید اکبر
بڑی بھولی ہے خرچیلی ضرورت
شہنشاہی کمائی مانگتی ہے
خورشید اکبر
بدن میں سانس لیتا ہے سمندر
مری کشتی ہوا پر چل رہی ہے
خورشید اکبر
چہرے ہیں کہ سو رنگ میں ہوتے ہیں نمایاں
آئینے مگر کوئی سیاست نہیں کرتے
خورشید اکبر
دلیلیں چھین کر میرے لبوں سے
وہ مجھ کو مجھ سے بہتر کاٹتا ہے
خورشید اکبر
درد کا ذائقہ بتاؤں کیا
یہ علاقہ زباں سے باہر ہے
خورشید اکبر
دل ہے کہ ترے پاؤں سے پازیب گری ہے
سنتا ہوں بہت دیر سے جھنکار کہیں کی
خورشید اکبر