وہ کون ہیں پھولوں کی حفاظت نہیں کرتے
سنتے ہیں جو خوشبو سے محبت نہیں کرتے
تم ہو کہ ابھی شہر میں مصروف بہت ہو
ہم ہیں کہ ابھی ذکر شہادت نہیں کرتے
قرآن کا مفہوم انہیں کون بتائے
آنکھوں سے جو چہروں کی تلاوت نہیں کرتے
ساحل سے سنا کرتے ہیں لہروں کی کہانی
یہ ٹھہرے ہوئے لوگ بغاوت نہیں کرتے
ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی
اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے
اس موسم جمہور میں وہ گل بھی کھلے ہیں
جو صاحب عالم کی حمایت نہیں کرتے
ہم بندۂ ناچیز گنہ گار ہیں لیکن
وہ بھی تو ذرا بارش رحمت نہیں کرتے
چہرے ہیں کہ سو رنگ میں ہوتے ہیں نمایاں
آئینے مگر کوئی سیاست نہیں کرتے
شبنم کو بھروسہ ہے بہت برگ اماں پر
خورشیدؔ بھی دانستہ قیامت نہیں کرتے
غزل
وہ کون ہیں پھولوں کی حفاظت نہیں کرتے
خورشید اکبر