EN हिंदी
خورشید اکبر شیاری | شیح شیری

خورشید اکبر شیر

38 شیر

غریبی کاٹنا آساں نہیں ہے
وہ ساری عمر پتھر کاٹتا ہے

خورشید اکبر




آتے آتے آئے گی دنیا داری
جاتے جاتے فاقہ مستی جائے گی

خورشید اکبر




دنیا کو روندنے کا ہنر جانتا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ دنیا کے بعد کیا

خورشید اکبر




دل ہے کہ ترے پاؤں سے پازیب گری ہے
سنتا ہوں بہت دیر سے جھنکار کہیں کی

خورشید اکبر




درد کا ذائقہ بتاؤں کیا
یہ علاقہ زباں سے باہر ہے

خورشید اکبر




دلیلیں چھین کر میرے لبوں سے
وہ مجھ کو مجھ سے بہتر کاٹتا ہے

خورشید اکبر




چہرے ہیں کہ سو رنگ میں ہوتے ہیں نمایاں
آئینے مگر کوئی سیاست نہیں کرتے

خورشید اکبر




بدن میں سانس لیتا ہے سمندر
مری کشتی ہوا پر چل رہی ہے

خورشید اکبر




بڑی بھولی ہے خرچیلی ضرورت
شہنشاہی کمائی مانگتی ہے

خورشید اکبر