اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے
کہ سدا نیستی ہی ہنستی ہے
نام سنتے ہو جس کا ویرانہ
وہی سودائیوں کی بستی ہے
شمع سے ہاتھ کھینچ اے گل گیر
اتنی بھی کیا دراز دستی ہے
چشم وحدت سے گر کوئی دیکھے
بت پرستی بھی حق پرستی ہے
اپنے ابر مژہ سے اے ؔجوشش
جائے آب آگ ہی برستی ہے
غزل
اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے
جوشش عظیم آبادی