EN हिंदी
اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے | شیح شیری
apni wo be-sabaat hasti hai

غزل

اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے

جوشش عظیم آبادی

;

اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے
کہ سدا نیستی ہی ہنستی ہے

نام سنتے ہو جس کا ویرانہ
وہی سودائیوں کی بستی ہے

شمع سے ہاتھ کھینچ اے گل گیر
اتنی بھی کیا دراز دستی ہے

چشم وحدت سے گر کوئی دیکھے
بت پرستی بھی حق پرستی ہے

اپنے ابر مژہ سے اے ؔجوشش
جائے آب آگ ہی برستی ہے