اس شرمگیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ
سر رشتۂ نگاہ کو اپنے نگاہ رکھ
کس لطف سے ہے آئنہ دیکھ اس کے رو بہ رو
گردوں نہ دل میں آرزوئے مہر و ماہ رکھ
دیوانے چاہتا ہے اگر وصل یار ہو
تیرا بڑا رقیب ہے دل اس سے راہ رکھ
دل دار ہو تو یا کہ دل آزار تیرا شوق
دل دے چکا میں خواہ نہ رکھ اس کو خواہ رکھ
دعوائے قتل کر تجھے منظور ہے جو دل
دامان و تیغ یار ہی کو تو گواہ رکھ
میں چاہتا ہوں تجھ کو تو چاہے ہے غیر کو
یہ کیا غضب ہے چاہنے والے کی چاہ رکھ
ؔجوشش جدا ہے یار سے تو جانتا ہوں میں
اتنا بھی اضطراب خدا پر نگاہ رکھ
غزل
اس شرمگیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ
جوشش عظیم آبادی