اس نے وعدہ کیا ہے آنے کا
رنگ دیکھو غریب خانے کا
جوشؔ ملیح آبادی
وہاں سے ہے مری ہمت کی ابتدا واللہ
جو انتہا ہے ترے صبر آزمانے کی
جوشؔ ملیح آبادی
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہ لطف نے برباد کیا
جوشؔ ملیح آبادی
ذرا آہستہ لے چل کاروان کیف و مستی کو
کہ سطح ذہن عالم سخت نا ہموار ہے ساقی
جوشؔ ملیح آبادی
گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا
چراغ مجلس روحانیاں جلاتا جا
جوشؔ ملیح آبادی
آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں
مشورے دے کے ہٹ گئے احباب
جوشؔ ملیح آبادی
آپ سے ہم کو رنج ہی کیسا
مسکرا دیجئے صفائی سے
جوشؔ ملیح آبادی
اب اے خدا عنایت بے جا سے فائدہ
مانوس ہو چکے ہیں غم جاوداں سے ہم
جوشؔ ملیح آبادی
اب دل کا سفینہ کیا ابھرے طوفاں کی ہوائیں ساکن ہیں
اب بحر سے کشتی کیا کھیلے موجوں میں کوئی گرداب نہیں
جوشؔ ملیح آبادی