EN हिंदी
جواد شیخ شیاری | شیح شیری

جواد شیخ شیر

14 شیر

میں چاہتا ہوں محبت مجھے فنا کر دے
فنا بھی ایسا کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

جواد شیخ




میں اس خیال سے جاتے ہوئے اسے نہ ملا
کہ روک لیں نہ کہیں سامنے کھڑے آنسو

جواد شیخ




نہیں ایسا بھی کہ یکسر نہیں رہنے والا
دل میں یہ شور برابر نہیں رہنے والا

جواد شیخ




ٹوٹنے پر کوئی آئے تو پھر ایسا ٹوٹے
کہ جسے دیکھ کے ہر دیکھنے والا ٹوٹے

جواد شیخ




یہ ناگزیر ہے امید کی نمو کے لیے
گزرتا وقت کہیں تھم گیا تو کیا ہوگا؟

جواد شیخ