EN हिंदी
میں چاہتا ہوں کہ دل میں ترا خیال نہ ہو | شیح شیری
main chahta hun ki dil mein tera KHayal na ho

غزل

میں چاہتا ہوں کہ دل میں ترا خیال نہ ہو

جواد شیخ

;

میں چاہتا ہوں کہ دل میں ترا خیال نہ ہو
عجب نہیں کہ مری زندگی وبال نہ ہو

میں چاہتا ہوں تو یک دم ہی چھوڑ جائے مجھے
یہ ہر گھڑی ترے جانے کا احتمال نہ ہو

میں چاہتا ہوں محبت پہ اب کی بار آئے
زوال ایسا کہ جس کو کبھی زوال نہ ہو

میں چاہتا ہوں محبت سرے سے مٹ جائے
میں چاہتا ہوں اسے سوچنا محال نہ ہو

میں چاہتا ہوں محبت مجھے فنا کر دے
فنا بھی ایسا کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

میں چاہتا ہوں محبت مرا وہ حال کرے
کہ خواب میں بھی دوبارہ کبھی مجال نہ ہو

میں چاہتا ہوں کہ اتنا ہی ربط رہ جائے
وہ یاد آئے مگر بھولنا محال نہ ہو

میں چاہتا ہوں مری آنکھیں نوچ لی جائیں
ترا خیال کسی طور پائمال نہ ہو

میں چاہتا ہوں کہ میں زخم زخم ہو جاؤں
اور اس طرح کہ کبھی خوف اندمال نہ ہو

مری مثال ہو سب کی نگاہ میں جوادؔ
میں چاہتا ہوں کسی اور کا یہ حال نہ ہو