EN हिंदी
کرے گا کیا کوئی میرے گلے سڑے آنسو | شیح شیری
karega kya koi mere gale-saDe aansu

غزل

کرے گا کیا کوئی میرے گلے سڑے آنسو

جواد شیخ

;

کرے گا کیا کوئی میرے گلے سڑے آنسو
تو کیوں نہ سوکھ ہی جائیں پڑے پڑے آنسو

جو یاد آئیں تو دل غم سے پھٹنے لگتا ہے
کسی عزیز کی پلکوں میں وہ جڑے آنسو

ہوا میں اپنی تہی دامنی سے شرمندہ
کسی کی آنکھوں میں تھے یہ بڑے بڑے آنسو

خزاں میں پتے بھی ایسے کہاں جھڑے ہوں گے
ہماری آنکھوں سے جوں ہجر میں جھڑے آنسو

میں اس خیال سے جاتے ہوئے اسے نہ ملا
کہ روک لیں نہ کہیں سامنے کھڑے آنسو

کسی نے ایک طرف مر کے بھی گلہ نہ کیا
کسی نے دیکھتے ہی دیکھتے گھڑے آنسو

مہارت ایسی کہ بس دیکھتے ہی رہ جاؤ
نکالتا ہے کوئی یوں کھڑے کھڑے آنسو

تمہیں کہا نا کہ بس ہو گئے جدا ہم لوگ
اکھاڑتے ہو میاں کس لیے گڑے آنسو

مگر جو ضبط نے طوفاں کھڑے کیے اب کے!!
تمام عمر بہایا کیے بڑے آنسو

عجب گداز طبیعت ہے آپ کی جوادؔ
ذرا سی بات ہوئی اور چھلک پڑے آنسو