غم جہاں سے میں اکتا گیا تو کیا ہوگا
خود اپنی فکر میں گھلنے لگا تو کیا ہوگا
یہ ناگزیر ہے امید کی نمو کے لیے
گزرتا وقت کہیں تھم گیا تو کیا ہوگا
یہی بہت ہے کہ ہم کو سکوں سے جینے دے
کسی کے ہاتھوں ہمارا بھلا تو کیا ہوگا
یہ لوگ میری خموشی پہ مجھ سے نالاں ہیں
کوئی یہ پوچھے میں گویا ہوا تو کیا ہوگا
میں اس لیے بھی بہت مختلف ہوں لوگوں سے
وہ سوچتے ہیں کہ ایسا ہوا تو کیا ہوگا
جنوں کی راہ عجب ہے کہ پاؤں دھرنے کو
زمین تک بھی نہیں نقش پا تو کیا ہوگا
یہ ایک خوف بھی میری خوشی میں شامل ہے
ترا بھی دھیان اگر ہٹ گیا تو کیا ہوگا
جو ہو رہا ہے وہ ہوتا چلا گیا تو پھر؟
جو ہونے کو ہے وہی ہو گیا تو کیا ہوگا
غزل
غم جہاں سے میں اکتا گیا تو کیا ہوگا
جواد شیخ