ہر طرف ہیں ترے دیدار کے بھوکے لاکھوں
پیٹ بھر کر کوئی ایسا بھی طرحدار نہ ہو
انشاءؔ اللہ خاں
عجیب لطف کچھ آپس کے چھیڑ چھاڑ میں ہے
کہاں ملاپ میں وہ بات جو بگاڑ میں ہے
انشاءؔ اللہ خاں
ہے خال یوں تمہارے چاہ ذقن کے اندر
جس روپ ہو کنھیا آب جمن کے اندر
انشاءؔ اللہ خاں
غنچۂ گل کے صبا گود بھری جاتی ہے
ایک پری آتی ہے اور ایک پری جاتی ہے
انشاءؔ اللہ خاں
گرمی نے کچھ آگ اور بھی سینہ میں لگائی
ہر طور غرض آپ سے ملنا ہی کم اچھا
انشاءؔ اللہ خاں
دے ایک شب کو اپنی مجھے زرد شال تو
ہے مجھ کو سونگھنے کے ہوس سو نکال تو
انشاءؔ اللہ خاں
دہکی ہے آگ دل میں پڑے اشتیاق کی
تیرے سوائے کس سے ہو اس کا علاج آج
انشاءؔ اللہ خاں
چھیڑنے کا تو مزہ جب ہے کہو اور سنو
بات میں تم تو خفا ہو گئے لو اور سنو
انشاءؔ اللہ خاں
چند مدت کو فراق صنم و دیر تو ہے
آؤ کعبہ کبھی دیکھ آئیں نہ اک سیر تو ہے
انشاءؔ اللہ خاں