کاٹے ہیں ہم نے یوں ہی ایام زندگی کے
سیدھے سے سیدھے سادے اور کج سے کج رہے ہیں
انشاءؔ اللہ خاں
جس نے یارو مجھ سے دعویٰ شعر کے فن کا کیا
میں نے لے کر اس کے کاغذ اور قلم آگے دھرا
انشاءؔ اللہ خاں
جذبۂ عشق سلامت ہے تو انشا اللہ
کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے
انشاءؔ اللہ خاں
جاوے وہ صنم برج کو تو آپ کنہیا
جھٹ سامنے ہو مرلی کی دھن نذر پکڑ کر
انشاءؔ اللہ خاں
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
انشاءؔ اللہ خاں
ہر طرف ہیں ترے دیدار کے بھوکے لاکھوں
پیٹ بھر کر کوئی ایسا بھی طرحدار نہ ہو
انشاءؔ اللہ خاں
ہے نور بصر مردمک دیدہ میں پنہاں یوں جیسے کنہیا
سو اشک کے قطروں سے پڑا کھیلے ہے جھرمٹ اور آنکھوں میں پنگھٹ
انشاءؔ اللہ خاں
ہے خال یوں تمہارے چاہ ذقن کے اندر
جس روپ ہو کنھیا آب جمن کے اندر
انشاءؔ اللہ خاں
غنچۂ گل کے صبا گود بھری جاتی ہے
ایک پری آتی ہے اور ایک پری جاتی ہے
انشاءؔ اللہ خاں