EN हिंदी
جو بات تجھ سے چاہی ہے اپنا مزاج آج | شیح شیری
jo baat tujhse chahi hai apna mizaj aaj

غزل

جو بات تجھ سے چاہی ہے اپنا مزاج آج

انشاءؔ اللہ خاں

;

جو بات تجھ سے چاہی ہے اپنا مزاج آج
قربان تیری کل پہ نہ ٹال آج آج آج

دہکی ہے آگ دل میں پڑے اشتیاق کی
تیرے سوائے کس سے ہو اس کا علاج آج

ہے فوج فوج غمزہ و انداز تیرے ساتھ
اقلیم ناز کا ہے تجھے تخت و تاج آج

تیرا وہ حسن ہے کہ جو ہوتا تو بھیجتا
یوسف زمین مصر سے تجھ کو خراج آج

خوباں روزگار مقلد ترے ہیں سب
جو چیز تو کرے سو وہ پاوے رواج آج

آب زلال وصل سے اندوہ درد و ہجر
ناپید گھل کے ہوتا ہے کیا مثل زاج آج

انشاؔ سے اپنے اور یہ انکار حیف ہے
لایا ہے وہ کبھی نہ کبھی احتیاج آج