EN हिंदी
حسن بریلوی شیاری | شیح شیری

حسن بریلوی شیر

19 شیر

عشق میں بے تابیاں ہوتی ہیں لیکن اے حسنؔ
جس قدر بے چین تم ہو اس قدر کوئی نہ ہو

حسن بریلوی




آئی کیا جی میں تیغ قاتل کے
کہ جدا ہو گئی گلے مل کے

حسن بریلوی




گلشن خلد کی کیا بات ہے کیا کہنا ہے
پر ہمیں تیرے ہی کوچے میں پڑا رہنا ہے

حسن بریلوی




ایک کہہ کر جس نے سننی ہو ہزاروں باتیں
وہ کہے ان سے مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے

حسن بریلوی




دل کو جاناں سے حسنؔ سمجھا بجھا کے لائے تھے
دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا

حسن بریلوی




دیکھ آؤ مریض فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے ثواب بھی ہے

حسن بریلوی




چوٹ جب دل پر لگے فریاد پیدا کیوں نہ ہو
اے ستم آرا جو ایسا ہو تو ایسا کیوں نہ ہو

حسن بریلوی




بولے وہ بوسہ ہائے پیہم پر
ارے کمبخت کچھ حساب بھی ہے

حسن بریلوی




ابر ہے گل زار ہے مے ہے خوشی کا دور ہے
آج تو ڈوبے ہوئے دل کو اچھلنے دیجئے

حسن بریلوی