EN हिंदी
حال مرگ بے کسی سن کر اثر کوئی نہ ہو | شیح شیری
haal-e-marg-e-be-kasi sun kar asar koi na ho

غزل

حال مرگ بے کسی سن کر اثر کوئی نہ ہو

حسن بریلوی

;

حال مرگ بے کسی سن کر اثر کوئی نہ ہو
سچ تو یہ ہے آپ سا بھی بے خبر کوئی نہ ہو

ہائے دشمن دیکھیں ان کے اٹھتے جوبن کی بہار
ہائے میں کوئی نہ ہوں میری نظر کوئی نہ ہو

اس تمنا پر کٹے مرتے ہیں مشتاقان قتل
یار پر قربان ہم سے پیشتر کوئی نہ ہو

وہ قیامت کی گھڑی ہے طالب دیدار پر
جب اٹھے پردا تو پردے کے ادھر کوئی نہ ہو

عشق میں بے تابیاں ہوتی ہیں لیکن اے حسنؔ
جس قدر بے چین تم ہو اس قدر کوئی نہ ہو