تم بھی ہو خنجر خوشاب بھی ہے
اور یہ خانماں خراب بھی ہے
وہ بھی ہیں ساغر شراب بھی ہے
چاند کے پاس آفتاب بھی ہے
بولے وہ بوسہ ہائے پیہم پر
ارے کمبخت کچھ حساب بھی ہے
پوچھتے جاتے ہیں یہ ہم سب سے
مجلس وعظ میں شراب بھی ہے
دیکھ آؤ مریض فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے ثواب بھی ہے
غزل
تم بھی ہو خنجر خوشاب بھی ہے
حسن بریلوی