ہم اس کوچے میں اٹھنے کے لیے بیٹھے ہیں مدت سے
مگر کچھ کچھ سہارا ہے ابھی بے دست و پائی کا
غلام مولیٰ قلق
آسماں اہل زمیں سے کیا کدورت ناک تھا
مدعی بھی خاک تھی اور مدعا بھی خاک تھا
غلام مولیٰ قلق
ہو محبت کی خبر کچھ تو خبر پھر کیوں ہو
یہ بھی اک بے خبری ہے کہ خبر رکھتے ہیں
غلام مولیٰ قلق
جبین پارسا کو دیکھ کر ایماں لرزتا ہے
معاذ اللہ کہ کیا انجام ہے اس پارسائی کا
غلام مولیٰ قلق
جھگڑا تھا جو دل پہ اس کو چھوڑا
کچھ سوچ کے صلح کر گئے ہم
غلام مولیٰ قلق
جی ہے یہ بن لگے نہیں رہتا
کچھ تو ہو شغل عاشقی ہی سہی
غلام مولیٰ قلق
جو کہتا ہے وہ کرتا ہے برعکس اس کے کام
ہم کو یقیں ہے وعدۂ نا استوار کا
غلام مولیٰ قلق
کون جانے تھا اس کا نام و نمود
میری بربادی سے بنا ہے عشق
غلام مولیٰ قلق
خود کو کبھی نہ دیکھا آئینے ہی کو دیکھا
ہم سے تو کیا کہ خود سے نا آشنا رہا ہے
غلام مولیٰ قلق