ہے اگر کچھ وفا تو کیا کہنے
کچھ نہیں ہے تو دل لگی ہی سہی
غلام مولیٰ قلق
آسماں اہل زمیں سے کیا کدورت ناک تھا
مدعی بھی خاک تھی اور مدعا بھی خاک تھا
غلام مولیٰ قلق
فکر ستم میں آپ بھی پابند ہو گئے
تم مجھ کو چھوڑ دو تو میں تم کو رہا کروں
غلام مولیٰ قلق
دل کے ہر جزو میں جدائی ہے
درد اٹھے آبلہ اگر بیٹھے
غلام مولیٰ قلق
دیار یار کا شاید سراغ لگ جاتا
جدا جو جادۂ مقصود سے سفر ہوتا
غلام مولیٰ قلق
بت خانے کی الفت ہے نہ کعبے کی محبت
جویائی نیرنگ ہے جب تک کہ نظر ہے
غلام مولیٰ قلق
بوسہ دینے کی چیز ہے آخر
نہ سہی ہر گھڑی کبھی ہی سہی
غلام مولیٰ قلق
اشک کے گرتے ہی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا
کون سی حسرت کا یا رب یہ چراغ خانہ تھا
غلام مولیٰ قلق
اندازہ آدمی کا کہاں گر نہ ہو شراب
پیمانہ زندگی کا نہیں گر سبو نہ ہو
غلام مولیٰ قلق