کعبہ بھی گھر اپنا ہے صنم خانہ بھی اپنا
ہر حسن کا جلوہ مرا ایمان نظر ہے
فگار اناوی
اک تیرا آسرا ہے فقط اے خیال دوست
سب بجھ گئے چراغ شب انتظار میں
فگار اناوی
حسرت دل نامکمل ہے کتاب زندگی
جوڑ دے ماضی کے سب اوراق مستقبل کے ساتھ
فگار اناوی
ہیں یہ جذبات مرے درد بھرے دل کے فگار
لفظ بن بن کے جو اشعار تک آ پہنچے ہیں
فگار اناوی
غم و الم سے جو تعبیر کی خوشی میں نے
بہت قریب سے دیکھی ہے زندگی میں نے
فگار اناوی
فضا کا تنگ ہونا فطرت آزاد سے پوچھو
پر پرواز ہی کیا جو قفس کو آشیاں سمجھے
فگار اناوی
ایک خواب و خیال ہے دنیا
اعتبار نظر کو کیا کہئے
فگار اناوی
دل مرا شاکیٔ جفا نہ ہوا
یہ وفادار بے وفا نہ ہوا
فگار اناوی
دل کی بنیاد پہ تعمیر کر ایوان حیات
قصر شاہی تو ذرا دیر میں ڈھ جاتے ہیں
فگار اناوی