آداب عاشقی سے تو ہم بے خبر نہ تھے
دیوانے تھے ضرور مگر اس قدر نہ تھے
فگار اناوی
عجیب کشمکش ہے کیسے حرف مدعا کہوں
وہ پوچھتے ہیں حال دل میں سوچتا ہوں کیا کہوں
فگار اناوی
بقدر ذوق میرے اشک غم کی ترجمانی ہے
کوئی کہتا ہے موتی ہے کوئی کہتا ہے پانی ہے
فگار اناوی
چھپ گیا دن قدم بڑھا راہی
دور منزل ہے مفت رات نہ کر
فگار اناوی
دیوانے کو مجاز و حقیقت سے کیا غرض
دیر و حرم ملے نہ ملے تیرا در ملے
فگار اناوی
دل چوٹ سہے اور اف نہ کرے یہ ضبط کی منزل ہے لیکن
ساغر ٹوٹے آواز نہ ہو ایسا تو بہت کم ہوتا ہے
فگار اناوی
دل ہے مرا رنگینیٔ آغاز پہ مائل
نظروں میں ابھی جام ہے انجام نہیں ہے
فگار اناوی
دل کی بنیاد پہ تعمیر کر ایوان حیات
قصر شاہی تو ذرا دیر میں ڈھ جاتے ہیں
فگار اناوی
دل مرا شاکیٔ جفا نہ ہوا
یہ وفادار بے وفا نہ ہوا
فگار اناوی