EN हिंदी
فگار اناوی شیاری | شیح شیری

فگار اناوی شیر

33 شیر

دل ہے مرا رنگینیٔ آغاز پہ مائل
نظروں میں ابھی جام ہے انجام نہیں ہے

فگار اناوی




دل چوٹ سہے اور اف نہ کرے یہ ضبط کی منزل ہے لیکن
ساغر ٹوٹے آواز نہ ہو ایسا تو بہت کم ہوتا ہے

فگار اناوی




دیوانے کو مجاز و حقیقت سے کیا غرض
دیر و حرم ملے نہ ملے تیرا در ملے

فگار اناوی




چھپ گیا دن قدم بڑھا راہی
دور منزل ہے مفت رات نہ کر

فگار اناوی




بقدر ذوق میرے اشک غم کی ترجمانی ہے
کوئی کہتا ہے موتی ہے کوئی کہتا ہے پانی ہے

فگار اناوی




عجیب کشمکش ہے کیسے حرف مدعا کہوں
وہ پوچھتے ہیں حال دل میں سوچتا ہوں کیا کہوں

فگار اناوی