EN हिंदी
بمل کرشن اشک شیاری | شیح شیری

بمل کرشن اشک شیر

14 شیر

میں بند کمرے کی مجبوریوں میں لیٹا رہا
پکارتی پھری بازار میں ہوا مجھ کو

بمل کرشن اشک




پڑنے لگے جو زور ہوس کا تو کیا نگاہ
ہر زاویے سے جسم نکلتا دکھائے دے

بمل کرشن اشک




سبھی انساں فرشتے ہو گئے ہیں
کسی دیوار میں سایہ نہیں ہے

بمل کرشن اشک




تم تو کچھ ایسے بھول گئے ہو جیسے کبھی واقف ہی نہیں تھے
اور جو یوں ہی کرنا تھا صاحب کس لیے اتنا پیار کیا تھا

بمل کرشن اشک




اسے چھت پر کھڑے دیکھا تھا میں نے
کہ جس کے گھر کا دروازہ نہیں ہے

بمل کرشن اشک