کدھر جاؤں کہیں رستا نہیں ہے
کہاں ڈوبوں کہ دل دریا نہیں ہے
ادھر بادل کبھی برسا نہیں ہے
جہاں تک شاخ ہے پتہ نہیں ہے
اسے چھت پر کھڑے دیکھا تھا میں نے
کہ جس کے گھر کا دروازہ نہیں ہے
وہی ہے گھونسلہ چمنی کے پیچھے
مگر چڑیوں کا وہ جوڑا نہیں ہے
بدن کے لوچ تک آزاد ہے وہ
اسے تہذیب نے باندھا نہیں ہے
ترے ہونٹوں کو چھو دیکھوں تو کہیو
مرے ہونٹوں میں کیا ایسا نہیں ہے
بدن ڈھانپے ہوئے پھرتا ہوں یعنی
ہوس کے نام پر دھاگا نہیں ہے
سبھی انساں فرشتے ہو گئے ہیں
کسی دیوار میں سایہ نہیں ہے
میں اس درجہ معزز ہو گیا ہوں
وہ میرے سامنے ہنستا نہیں ہے
غزل
کدھر جاؤں کہیں رستا نہیں ہے
بمل کرشن اشک