ان کی گود میں سر رکھ کر جب آنسو آنسو رویا تھا
کچھ لمحے گزرے وہ لمحہ میری آنکھوں سے گزرا تھا
اے ساٹن کے نیلے پردو تم پر یہ کس کا سایہ ہے
کیا مجھ کو کچھ وہم ہوا ہے یا سچ مچ کوئی آیا تھا
جیسے دروازہ وا کر کے نکلا ہے کوئی کمرے سے
جیسے اک دو لمحے گزرے صوفے پر کوئی بیٹھا تھا
سچ سچ کہنا اے دیوارو اے تصویرو جھوٹ نہ بولو
آخر ہے تو اس کمرے میں جس نے اس کا نام لیا تھا
تم تو کچھ ایسے بھول گئے ہو جیسے کبھی واقف ہی نہیں تھے
اور جو یوں ہی کرنا تھا صاحب کس لیے اتنا پیار کیا تھا
آج تو سرسوں کا پیلا پن اگنی بھرتا ہے تن من میں
ایک سمے تھا جب یہی موسم کھیت کھیت پیارا لگتا تھا
ایک پرانے گیت کی دھن نے گزری یادیں یاد دلا دیں
دامن کو اشکوں سے بھگوئے ایک زمانہ بیت چلا تھا
غزل
ان کی گود میں سر رکھ کر جب آنسو آنسو رویا تھا
بمل کرشن اشک