مری بھی مان مرا عکس مت دکھا مجھ کو
میں رو پڑوں گا مرے سامنے نہ لا مجھ کو
میں بند کمرے کی مجبوریوں میں لیٹا رہا
پکارتی پھری بازار میں ہوا مجھ کو
تو سامنے ہے تو آواز کون سنتا ہے
جو ہو سکے تو کہیں دور سے بلا مجھ کو
تو عکس بن کے مرے آئینے میں بیٹھا رہا
تمام عمر کوئی دیکھتا ہوا مجھ کو
ورق ورق یوں ہی پھرتا رہوں کہاں تک میں
کتاب جان کے بک شیلف پر سجا مجھ کو
خدا تو اب بھی ہے وہ اشکؔ کیا بگڑ جاتا
اگر وہ اور طریقے سے سوچتا مجھ کو
غزل
مری بھی مان مرا عکس مت دکھا مجھ کو
بمل کرشن اشک