آج نکلے یاد کی زنبیل سے
مور کے ٹوٹے ہوئے دو چار پر
اظہر ادیب
ہمارے نام کی تختی بھی ان پہ لگ نہ سکی
لہو میں گوندھ کے مٹی جو گھر بنائے گئے
اظہر ادیب
ہمیں روکو نہیں ہم نے بہت سے کام کرنے ہیں
کسی گل میں مہکنا ہے کسی بادل میں رہنا ہے
اظہر ادیب
ہوا کو ضد کہ اڑائے گی دھول ہر صورت
ہمیں یہ دھن ہے کہ آئینہ صاف کرنا ہے
اظہر ادیب
اس لیے میں نے محافظ نہیں رکھے اپنے
مرے دشمن مرے اس جسم سے باہر کم ہیں
اظہر ادیب
اتنا بھی انحصار مرے سائے پر نہ کر
کیا جانے کب یہ موم کی دیوار گر پڑے
اظہر ادیب
جب بھی چاہوں تیرا چہرا سوچ سکوں
بس اتنی سی بات مرے امکان میں رکھ
اظہر ادیب
جو زندگی کی مانگ سجاتے رہے سدا
قسطوں میں بانٹ کر انہیں جینا دیا گیا
اظہر ادیب
کبھی اس سے دعا کی کھیتیاں سیراب کرنا
جو پانی آنکھ کے اندر کہیں ٹھہرا ہوا ہے
اظہر ادیب