در ٹوٹنے لگے کبھی دیوار گر پڑے
ہر روز میرے سر پہ یہ تلوار گر پڑے
اتنا بھی انحصار مرے سائے پر نہ کر
کیا جانے کب یہ موم کی دیوار گر پڑے
سانسیں بچھا کے سوؤں کہ دست نسیم سے
شاید کسی کے جسم کی مہکار گر پڑے
ٹھہرے تو سائبان ہوا نے اڑا دئے
چلنے لگے تو راہ کے اشجار گر پڑے
ہر زاویے پہ سوچ میں ابھرے وہی بدن
ہر دائرے پہ ہاتھ سے پرکار گر پڑے
اظہرؔ یہ لمحہ لمحہ سلگنا عذاب ہے
مجھ پر جو برق گرنی ہے اک بار گر پڑے
غزل
در ٹوٹنے لگے کبھی دیوار گر پڑے
اظہر ادیب