کچھ اب کے رسم جہاں کے خلاف کرنا ہے
شکست دے کے عدو کو معاف کرنا ہے
ہوا کو ضد کہ اڑائے گی دھول ہر صورت
ہمیں یہ دھن ہے کہ آئینہ صاف کرنا ہے
وہ بولتا ہے تو سب لوگ ایسے سنتے ہیں
کہ جیسے اس نے کوئی انکشاف کرنا ہے
مجھے پتہ ہے کہ اپنے بیان سے اس نے
کہاں کہاں پہ ابھی انحراف کرنا ہے
چراغ لے کے ہتھیلی پہ گھومنا ایسے
ہوائے تند کو اپنے خلاف کرنا ہے
وہ جرم ہم سے جو سرزد نہیں ہوئے اظہرؔ
ابھی تو ان کا ہمیں اعتراف کرنا ہے
غزل
کچھ اب کے رسم جہاں کے خلاف کرنا ہے
اظہر ادیب