ہمارے نام کی تختی بھی ان پہ لگ نہ سکی
لہو میں گوندھ کے مٹی جو گھر بنائے گئے
اظہر ادیب
آج نکلے یاد کی زنبیل سے
مور کے ٹوٹے ہوئے دو چار پر
اظہر ادیب
ہم نے گھر کی سلامتی کے لئے
خود کو گھر سے نکال رکھا ہے
اظہر ادیب
غزل اس کے لئے کہتے ہیں لیکن درحقیقت ہم
گھنے جنگل میں کرنوں کے لئے رستہ بناتے ہیں
اظہر ادیب
ایک لمحے کو سہی اس نے مجھے دیکھا تو ہے
آج کا موسم گزشتہ روز سے اچھا تو ہے
اظہر ادیب
دونوں ہاتھوں سے چھپا رکھا ہے منہ
آئنے کے وار سے ڈرتا ہوں میں
اظہر ادیب
دیر لگتی ہے بہت لوٹ کے آتے آتے
اور وہ اتنے میں ہمیں بھول چکا ہوتا ہے
اظہر ادیب
دشت شب میں پتا ہی نہیں چل سکا
اپنی آنکھیں گئیں یا ستارے گئے
اظہر ادیب
بے خوابی کب چھپ سکتی ہے کاجل سے بھی
جاگنے والی آنکھ میں لالی رہ جاتی ہے
اظہر ادیب