جگہ پھولوں کی رکھتے ہیں گھنا سایہ بناتے ہیں
چلو اپنے خیالی شہر کا نقشہ بناتے ہیں
ابھی تو چاک پر ہیں کیا کہیں ہم اپنے بارے میں
نہ جانے دست کوزہ گر ہمیں کیسا بناتے ہیں
بنانی ہے ہمیں تصویر دل کاغذ پہ لیکن ہم
کبھی دریا بناتے ہیں کبھی صحرا بناتے ہیں
غزل اس کے لئے کہتے ہیں لیکن درحقیقت ہم
گھنے جنگل میں کرنوں کے لئے رستہ بناتے ہیں
کبھی بھولے سے بھی اس کی طرف مت دیکھنا اظہرؔ
ذرا سی بات کا یہ لوگ افسانہ بناتے ہیں
غزل
جگہ پھولوں کی رکھتے ہیں گھنا سایہ بناتے ہیں
اظہر ادیب