دل پیاسا اور آنکھ سوالی رہ جاتی ہے
اس کے بعد یہ بستی خالی رہ جاتی ہے
بے خوابی کب چھپ سکتی ہے کاجل سے بھی
جاگنے والی آنکھ میں لالی رہ جاتی ہے
تیر ترازو ہو جاتا ہے آ کر دل میں
ہاتھوں میں زیتون کی ڈالی رہ جاتی ہے
دھوپ سے رنگ اور ہوا سے کاغذ اڑ جاتے ہیں
ذہن میں اک تصویر خیالی رہ جاتی ہے
کبھی کبھی تو اظہرؔ بالکل مر جاتا ہوں
بس اک مٹی اوڑھنے والی رہ جاتی ہے
غزل
دل پیاسا اور آنکھ سوالی رہ جاتی ہے
اظہر ادیب