کب کیا تھا اس دل پر حسن نے کرم اتنا
مہرباں اور اس درجہ کب تھا آسماں اپنا
اسرار الحق مجاز
اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم
ہٹ کر چلے ہیں رہ گزر کارواں سے ہم
اسرار الحق مجاز
عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے
حسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لیے
love is needlessly defamed that for vision it is keen
beauty is impatient too for its splendour to be seen
اسرار الحق مجاز
اس محفل کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
اسرار الحق مجاز
حسن کو شرمسار کرنا ہی
عشق کا انتقام ہوتا ہے
اسرار الحق مجاز
ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا
انساں کی جستجو میں اک انساں چلا گیا
اسرار الحق مجاز
ہجر میں کیف اضطراب نہ پوچھ
خون دل بھی شراب ہونا تھا
اسرار الحق مجاز
ہم عرض وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے
اسرار الحق مجاز
ڈبو دی تھی جہاں طوفاں نے کشتی
وہاں سب تھے خدا کیا نا خدا کیا
اسرار الحق مجاز