اک حسیں خواب کہ آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں
ایک وحشت ہے کہ تعبیر ہوئی جاتی ہے
عنبرین حسیب عنبر
ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ
تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی
عنبرین حسیب عنبر
فیصلہ بچھڑنے کا کر لیا ہے جب تم نے
پھر مری تمنا کیا پھر مری اجازت کیوں
عنبرین حسیب عنبر
دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا
عنبرین حسیب عنبر
دل جن کو ڈھونڈھتا ہے نہ جانے کہاں گئے
خواب و خیال سے وہ زمانے کہاں گئے
عنبرین حسیب عنبر
بھول جوتے ہیں مسافر رستہ
لوگ کہتے ہیں کہانی پھر بھی
عنبرین حسیب عنبر
عیاں دونوں سے تکمیل جہاں ہے
زمیں گم ہو تو پھر کیا آسماں ہے
عنبرین حسیب عنبر
اے آسماں کس لیے اس درجہ برہمی
ہم نے تو تری سمت اشارا نہیں کیا
عنبرین حسیب عنبر