ہر خواب کالی رات کے سانچے میں ڈھال کر
یہ کون چھپ گیا ہے ستارے اچھال کر
ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے
گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر
خانہ خرابیوں میں ترا بھی پتہ نہیں
تجھ کو بھی کیا ملا ہمیں گھر سے نکال کر
جھلسا گیا ہے کاغذی چہروں کی داستاں
جلتی ہوئی خموشیاں لفظوں میں ڈھال کر
یہ پھول خود ہی سوکھ کر آئیں گے خاک پر
تو اپنے ہاتھ سے نہ انہیں پائمال کر
غزل
ہر خواب کالی رات کے سانچے میں ڈھال کر
عادل منصوری