EN हिंदी
ہر خواب کالی رات کے سانچے میں ڈھال کر | شیح شیری
har KHwab kali raat ke sanche mein Dhaal kar

غزل

ہر خواب کالی رات کے سانچے میں ڈھال کر

عادل منصوری

;

ہر خواب کالی رات کے سانچے میں ڈھال کر
یہ کون چھپ گیا ہے ستارے اچھال کر

ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے
گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر

خانہ خرابیوں میں ترا بھی پتہ نہیں
تجھ کو بھی کیا ملا ہمیں گھر سے نکال کر

جھلسا گیا ہے کاغذی چہروں کی داستاں
جلتی ہوئی خموشیاں لفظوں میں ڈھال کر

یہ پھول خود ہی سوکھ کر آئیں گے خاک پر
تو اپنے ہاتھ سے نہ انہیں پائمال کر