کیوں ملامت اس قدر کرتے ہو بے حاصل ہے یہ
لگ چکا اب چھوٹنا مشکل ہے اس کا دل ہے یہ
بے قراری سیں نہ کر ظالم ہمارے دل کوں منع
کیوں نہ تڑپے خاک و خوں میں اس قدر بسمل ہے یہ
عشق کوں مجنوں کے افلاطوں سمجھ سکتا نہیں
گو کہ سمجھاوے پہ سمجھے گا نہیں عاقل ہے یہ
کون سمجھاوے مرے دل کوں کوئی منصف نہیں
غیر حق کو چاہتا ہے کیوں ایتا باطل ہے یہ
کون ہے انساں کا کوئی دوست ایسا جو کہے
موت اس کی فکر میں لاگی ہے اور غافل ہے یہ
عاشقی کے فن میں ہے دل سیں جھگڑنا بے حساب
کچھ نہیں باقی رکھا اس علم میں فاضل ہے یہ
ہم تو کہتے تھے کہ پھر پانے کے نہیں جانے نہ دو
اب گئے پر آبروؔ پھر پائیے مشکل ہے یہ
غزل
کیوں ملامت اس قدر کرتے ہو بے حاصل ہے یہ
آبرو شاہ مبارک