EN हिंदी
توسوف شیاری | شیح شیری

توسوف

16 شیر

بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا

اکبر الہ آبادی




فریب جلوہ کہاں تک بروئے کار رہے
نقاب اٹھاؤ کہ کچھ دن ذرا بہار رہے

اختر علی اختر




شبان ہجراں دراز چوں زلف روز وصلت چو عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

امیر خسرو




زحال مسکیں مکن تغافل دوراے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

امیر خسرو




یار کو ہم نے برملا دیکھا
آشکارا کہیں چھپا دیکھا

بہرام جی




تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں

داغؔ دہلوی




تو ہی ظاہر ہے تو ہی باطن ہے
تو ہی تو ہے تو میں کہاں تک ہوں

اسماعیلؔ میرٹھی