اندھیروں میں اجالے ڈھونڈھتا ہوں
یہ حسن ظن ہے یا دیوانہ پن ہے
واحد پریمی
آشیاں جلنے پہ بنیاد نئی پڑتی ہے
عکس تخریب کو آئینۂ تعمیر کہو
واحد پریمی
آزاد تو برسوں سے ہیں ارباب گلستاں
آئی نہ مگر طاقت پرواز ابھی تک
واحد پریمی
اپنا نفس نفس ہے کہ شعلہ کہیں جسے
وہ زندگی ہے آگ کا دریا کہیں جسے
واحد پریمی
بعد تکلیف کے راحت ہے یقینی واحدؔ
رات کا آنا ہی پیغام سحر ہوتا ہے
واحد پریمی
دلوں میں زخم ہونٹوں پر تبسم
اسی کا نام تو زندہ دلی ہے
واحد پریمی
ایک مدت سے اسی الجھن میں ہوں
ان کو یا خود کو کسے سجدہ کروں
واحد پریمی
گل غنچے آفتاب شفق چاند کہکشاں
ایسی کوئی بھی چیز نہیں جس میں تو نہ ہو
واحد پریمی
ہے شام اودھ گیسوئے دلدار کا پرتو
اور صبح بنارس ہے رخ یار کا پرتو
واحد پریمی