EN हिंदी
واحد پریمی شیاری | شیح شیری

واحد پریمی شیر

28 شیر

حق بات سر بزم بھی کہنے میں تأمل
حق بات سر دار کہو سوچتے کیا ہو

واحد پریمی




ہم وہ رہرو ہیں کہ چلنا ہی ہے مسلک جن کا
ہم تو ٹھکرا دیں اگر راہ میں منزل آئے

واحد پریمی




ہے شام اودھ گیسوئے دلدار کا پرتو
اور صبح بنارس ہے رخ یار کا پرتو

واحد پریمی




گل غنچے آفتاب شفق چاند کہکشاں
ایسی کوئی بھی چیز نہیں جس میں تو نہ ہو

واحد پریمی




ایک مدت سے اسی الجھن میں ہوں
ان کو یا خود کو کسے سجدہ کروں

واحد پریمی




دلوں میں زخم ہونٹوں پر تبسم
اسی کا نام تو زندہ دلی ہے

واحد پریمی




بعد تکلیف کے راحت ہے یقینی واحدؔ
رات کا آنا ہی پیغام سحر ہوتا ہے

واحد پریمی




اپنا نفس نفس ہے کہ شعلہ کہیں جسے
وہ زندگی ہے آگ کا دریا کہیں جسے

واحد پریمی




آزاد تو برسوں سے ہیں ارباب گلستاں
آئی نہ مگر طاقت پرواز ابھی تک

واحد پریمی