ایک سائے کی طلب میں زندگی پہنچی یہاں
دور تک پھیلا ہوا ہے مجھ میں منظر دھوپ کا
طفیل چترویدی
ہم بزرگوں کی روایت سے جڑے ہیں بھائی
نیکیاں کر کے کبھی پھل نہیں مانگا کرتے
طفیل چترویدی
ہر طرف پھیلا ہوا بے سمت بے منزل سفر
بھیڑ میں رہنا مگر خود کو اکیلا دیکھنا
طفیل چترویدی
کبھی زمانہ تھا اس کی طلب میں رہتے تھے
اور اب یہ حال ہے خود کو اسی سے مانگتے ہیں
طفیل چترویدی
نفرتوں کا عکس بھی پڑنے نہ دینا ذہن پر
یہ اندھیرا جانے کتنوں کا اجالا کھا گیا
طفیل چترویدی
سبھی زخموں کے ٹانکے کھل گئے ہیں
ہمیں ہنسنا بہت مہنگا پڑا ہے
طفیل چترویدی
سفر انجام تک پہنچے تو کیسے
میں اپنے راستے میں خود کھڑا ہوں
طفیل چترویدی
اس کے وعدے کے عوض دے ڈالی اپنی زندگی
ایک سستی شے کا اونچے بھاؤ سودا کر لیا
طفیل چترویدی
وہ موسموں پر اچھالتا ہے سوال کتنے
کبھی تو یوں ہو کہ آسماں سے جواب برسے
طفیل چترویدی