EN हिंदी
تنویر سپرا شیاری | شیح شیری

تنویر سپرا شیر

16 شیر

آج بھی سپراؔ اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے
میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں

تنویر سپرا




آج اتنا جلاؤ کہ پگھل جائے مرا جسم
شاید اسی صورت ہی سکوں پائے مرا جسم

تنویر سپرا




اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے

تنویر سپرا




اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

تنویر سپرا




عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا
اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے

تنویر سپرا




دیہات کے وجود کو قصبہ نگل گیا
قصبے کا جسم شہر کی بنیاد کھا گئی

تنویر سپرا




ہم حزب اختلاف میں بھی محترم ہوئے
وہ اقتدار میں ہیں مگر بے وقار ہیں

تنویر سپرا




جو کر رہا ہے دوسروں کے ذہن کا علاج
وہ شخص خود بہت بڑا ذہنی مریض ہے

تنویر سپرا




کبھی اپنے وسائل سے نہ بڑھ کر خواہشیں پالو
وہ پودا ٹوٹ جاتا ہے جو لا محدود پھلتا ہے

تنویر سپرا