آج اتنا جلاؤ کہ پگھل جائے مرا جسم
شاید اسی صورت ہی سکوں پائے مرا جسم
آغوش میں لے کر مجھے اس زور سے بھینچو!
شیشے کی طرح چھن سے چٹخ جائے مرا جسم
یا دعویٔ مہتاب تجلی نہ کرے وہ
یا نور کی کرنوں سے وہ نہلائے مرا جسم
کس شہر طلسمات میں لے آیا تخیل
جس سمت نظر جائے نظر آئے مرا جسم
آئینے کی صورت میں مری ذات کے دو رخ
جاں محو فغاں ہے تو غزل گائے مرا جسم
تنویرؔ پڑھو اسم کوئی رد بلا کا
گھیرے میں لیے بیٹھے ہیں کچھ سائے مرا جسم
غزل
آج اتنا جلاؤ کہ پگھل جائے مرا جسم
تنویر سپرا