آنکھیں نہ جینے دیں گی تری بے وفا مجھے
کیوں کھڑکیوں سے جھانک رہی ہے قضا مجھے
امداد علی بحر
افسوس عمر کٹ گئی رنج و ملال میں
دیکھا نہ خواب میں بھی جو کچھ تھا خیال میں
امداد علی بحر
کیا کیا نہ مجھ سے سنگ دلی دلبروں نے کی
پتھر پڑیں سمجھ پہ نہ سمجھا کسی طرح
امداد علی بحر
میرا دل کس نے لیا نام بتاؤں کس کا
میں ہوں یا آپ ہیں گھر میں کوئی آیا نہ گیا
امداد علی بحر
مدت سے التفات مرے حال پر نہیں
کچھ تو کجی ہے دل میں کہ سیدھی نظر نہیں
امداد علی بحر
زاہدو دعوت رنداں ہے شراب اور کباب
کبھی میخانے میں بھی روزہ کشائی ہو جائے
امداد علی بحر
ظالم ہماری آج کی یہ بات یاد رکھ
اتنا بھی دل جلوں کا ستانا بھلا نہیں
امداد علی بحر