EN हिंदी
شبانہ یوسف شیاری | شیح شیری

شبانہ یوسف شیر

8 شیر

ابھی سے چھوٹی ہوئی جا رہی ہیں دیواریں
ابھی تو بیٹی ذرا سی مری بڑی ہوئی ہے

شبانہ یوسف




اگر بچھڑنے کا اس سے کوئی ملال نہیں
شبانہؔ اشک سے پھر آنکھ کیوں بھری ہوئی ہے

شبانہ یوسف




اک یہی سوچ بچھڑنے نہیں دیتی تجھ سے
ہم تجھے بعد میں پھر یاد نہ آنے لگ جائیں

شبانہ یوسف




خود چراغوں کو اندھیروں کی ضرورت ہے بہت
روشنی ہو تو انہیں لوگ بجھانے لگ جائیں

شبانہ یوسف




میں ہاتھ باندھے ہوئے لوٹ آئی ہوں گھر میں
کہ میرے پرس میں اک آرزو مری ہوئی ہے

شبانہ یوسف




میرے آنے کی خبر سن کے وہ دوڑا آتا
اس کو پہنچا نہیں پیغام یہی لگتا ہے

شبانہ یوسف




مجھ کو بھی کر دے گا رسوا وہ زمانے بھر میں
خود بھی ہو جائے گا بدنام یہی لگتا ہے

شبانہ یوسف




یہ تو سوچا ہی نہیں اس کو جدا کرتے ہوئے
چن لیا ہے غم بھی خوشیوں کو رہا کرتے ہوئے

شبانہ یوسف