EN हिंदी
اسی کے قرب میں رہ کر ہری بھری ہوئی ہے | شیح شیری
usi ke qurb mein rah kar hari bhari hui hai

غزل

اسی کے قرب میں رہ کر ہری بھری ہوئی ہے

شبانہ یوسف

;

اسی کے قرب میں رہ کر ہری بھری ہوئی ہے
سہارے پیڑ کے یہ بیل جو کھڑی ہوئی ہے

ابھی سے چھوٹی ہوئی جا رہی ہیں دیواریں
ابھی تو بیٹی ذرا سی مری بڑی ہوئی ہے

بنا کے گھونسلہ چڑیا شجر کی بانہوں میں
نہ جانے کس لیے آندھی سے ڈری ہوئی ہے

ابھی تو پہلے سفر کی تھکن ہے پاؤں میں
کہ پھر سے جوتی پہ جوتی مری پڑی ہوئی ہے

نئی رتوں کے مقدس بلاوے تو ہیں مگر
صلیب وعدوں کی جو رہ میں اک گڑی ہوئی ہے

میں ہاتھ باندھے ہوئے لوٹ آئی ہوں گھر میں
کہ میرے پرس میں اک آرزو مری ہوئی ہے

اگر بچھڑنے کا اس سے کوئی ملال نہیں
شبانہؔ اشک سے پھر آنکھ کیوں بھری ہوئی ہے