یہ تو سوچا ہی نہیں اس کو جدا کرتے ہوئے
چن لیا ہے غم بھی خوشیوں کو رہا کرتے ہوئے
جن چراغوں پر بھروسہ تھا انھوں نے آخرش
سازشیں کر لیں ہواؤں سے دغا کرتے ہوئے
آنکھ کے صندوقچے میں بند ہے اک سیل درد
ڈر رہی ہوں قفل ان پلکوں کے وا کرتے ہوئے
جانتی تھی کب بھٹکتی ہی رہے گی در بہ در
ہم سفر اپنا سحابوں کو گھٹا کرتے ہوئے
دوست کو پہچانتی تھیں آنکھیں نہ دشمن کوئی
پھوڑ ڈالا ہے انہیں اپنی سزا کرتے ہوئے
غزل
یہ تو سوچا ہی نہیں اس کو جدا کرتے ہوئے
شبانہ یوسف