EN हिंदी
یہ تو سوچا ہی نہیں اس کو جدا کرتے ہوئے | شیح شیری
ye to socha hi nahin usko juda karte hue

غزل

یہ تو سوچا ہی نہیں اس کو جدا کرتے ہوئے

شبانہ یوسف

;

یہ تو سوچا ہی نہیں اس کو جدا کرتے ہوئے
چن لیا ہے غم بھی خوشیوں کو رہا کرتے ہوئے

جن چراغوں پر بھروسہ تھا انھوں نے آخرش
سازشیں کر لیں ہواؤں سے دغا کرتے ہوئے

آنکھ کے صندوقچے میں بند ہے اک سیل درد
ڈر رہی ہوں قفل ان پلکوں کے وا کرتے ہوئے

جانتی تھی کب بھٹکتی ہی رہے گی در بہ در
ہم سفر اپنا سحابوں کو گھٹا کرتے ہوئے

دوست کو پہچانتی تھیں آنکھیں نہ دشمن کوئی
پھوڑ ڈالا ہے انہیں اپنی سزا کرتے ہوئے