EN हिंदी
ثناء اللہ ظہیر شیاری | شیح شیری

ثناء اللہ ظہیر شیر

7 شیر

اپنی مستی کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

ثناء اللہ ظہیر




کہانی پھیل رہی ہے اسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے

ثناء اللہ ظہیر




خلا میں تیرتے پھرتے ہیں ہاتھ پکڑے ہوئے
زمیں کی ایک صدی ایک سال سورج کا

ثناء اللہ ظہیر




میں دے رہا ہوں تجھے خود سے اختلاف کا حق
یہ اختلاف کا حق ہے مخالفت کا نہیں

ثناء اللہ ظہیر




میرا یہ دکھ کہ میں سکہ ہوں گئے وقتوں کا
تیرا ہو کر بھی ترے کام نہیں آ سکتا

ثناء اللہ ظہیر




ترے مکاں کا تقدس عزیز تھا اتنا
میں آ رہا ہوں گلی سے پرے اتار کے پاؤں

ثناء اللہ ظہیر




اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

ثناء اللہ ظہیر