EN हिंदी
ساحر دہلوی شیاری | شیح شیری

ساحر دہلوی شیر

23 شیر

آتے ہوئے اس تن میں نہ جاتے ہوئے تن سے
ہے جان مکیں کو نہ لگاوٹ نہ رکاوٹ

ساحر دہلوی




عہد‌ میثاق کا لازم ہے ادب اے واعظ
ہے یہ پیمان وفا رشتۂ زنار نہ توڑ

ساحر دہلوی




اے پری رو ترے دیوانے کا ایماں کیا ہے
اک نگاہ غلط انداز پہ قرباں ہونا

ساحر دہلوی




عیاں علیمؔ سے ہے جسم و جان کا الحاق
مکیں مکاں میں نہ ہوتا تو لا مکاں ہوتا

ساحر دہلوی




ازل سے ہم نفسی ہے جو جان جاں سے ہمیں
پیام دم بدم آتا ہے لا مکاں سے ہمیں

ساحر دہلوی




بے نشاں ساحر نشاں میں آ کے شاید بن گیا
لا مکاں ہو کر مکاں میں خود مکیں ہوتا رہا

ساحر دہلوی




غم موجود غلط اور غم فردا باطل
راحت اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں

ساحر دہلوی




ہے صنم خانہ مرا پیمان عشق
ذوق مے خانہ مجھے سامان عشق

ساحر دہلوی




ہم گدائے در مے خانہ ہیں اے پیر مغاں
کام اپنا ترے صدقہ میں چلا لیتے ہیں

ساحر دہلوی